تحریک پاکستان میں مسیحیو ں کا کردار۔
تحریک پاکستان میں مسیحیو ں کا کردار۔
قیامِ پاکستان و قراردادِ پاکستان پیش کرنے میں مسیحی و دیگر غیر مسلم لیڈروں کا کلیدی کردار۔۔۔!!! ♥🇵🇰✌️
جیسے ہی ہر سال 23 مارچ کا سورج طلوع ہوتا ہے تو ہمارا دل، ہمارے خیالات تاریخ میں گُم ہو جاتے ہیں کہ جب ہمارے بزرگوں نے پاکستان کو بطورِ الگ ریاست بنانے کا منصوبہ تیار کیا اور ٹھیک 23 مارچ 1940 کو علیحدہ پاکستان کو بنانے کا عندیہ دیدیا۔
1940ء میں 23 مارچ کو لاہور میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں ایک قرارداد منظور کی گئی تھی جس کے ذریعے مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن کے قیام کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ سات سال کے قلیل عرصے میں اپنے لئے ایک الگ ریاست حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
پاکستان کو الگ ریاست بنانے میں جہاں مسلم رہنماؤں نے اپنا اہم کردار ادا کیا وہیں اس وقت کے مسیحی رہنماوں نے بھی اپنی جانوں کی قربانیاں دینے کیساتھ ساتھ جلسے، جلوسوں اور اہم معاملات میں پیش پیش رہے۔
1931ء میں دوسری گول میز کانفرنس کے دوران اقلیتوں کے مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے سکھوں کے علاوہ ہندوستان کی تمام اقلیتوں نے سر آغا خان کی قیادت میں ایک معاہدہ کیا تھا جو تاریخ پاک و ہند میں ’’اقلیتوں کا معاہدہ‘‘ کہلاتا ہے۔اس معاہدے میں مسلم لیگ کی طرف سے سر آغا خان ، شیڈول کاسٹ کی جانب سے ڈاکٹر بھیم راؤ میڈکر ، ہندوستانی اینگلو کی طرف سے راؤ بہادر پاتیر سلوان اور یورپین مسیحیوں کی طرف سے سر ہنری گڈنی اور سر ہربرٹ کار نے دستخط کیے تھے ۔
اس معاہدے کو تحریک آزادی کے دوران اقلیتوں کی مشترکہ عملی جدوجہد بھی قرار دیا جاتا ہے۔22دسمبر1939 میں جب اونچی ذات کے ہندو پالیسوں کے احتجاج میں قائداعظم کی کال پر کانگریسی وزارتوں میں مسلمان نمایندوں کے مستعفی ہونے پر ’’یوم نجات‘‘ منایا گیا تو کانگریس یہ دیکھ کر حیران ہوگئی کہ ’’یوم نجات‘‘ میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ پارسی ، مسیحیوں اور لاکھوں کی تعداد میں شیڈول کاسٹ بھی شریک ہوئیں۔ 23مارچ 1940 کو مسلم لیگ نے مسلم لیگ سالانہ اجلاس لاہور میں تاریخ ساز قرارداد پاکستان پیش کی تو اس اجلاس میں ستیا پرکاش سنگھا ، سی ای گبن، ایم ایل رلیا رام ، جوشو افصل الدین ، الفریڈ پرشاد، ایف ای چوہدری ، بہادر ایس پی سنگھا ، آر اے گومز ، ایس ایس البرٹ ، راجکماری امرت کور بھی شامل تھے ۔
ان کے علاوہ دیگر کئی شیڈول کاسٹ اور مسیحی رہنما بطور مبصر مدعو تھے۔مسیحیوں اور شیڈول کاسٹ نے ہر قدم پر قائد اعظم کا ساتھ اس لیے دیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ پاکستان میں ہی ان کے حقوق کا تحفظ ممکن ہوسکے گا۔اسی وجہ سے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کی صدارت شیڈول کاسٹ راہنما جوگندر ناتھ منڈل نے کی جو کہ پاکستان کے پہلے وزیر قانون بھی تھے۔ان کے علاوہ کرن شنکر رائے ، دھیریندر ناتھ دتہ ، پریم ہری ورما ، راج کمار چکرورتی ، سرس چٹو پادھینا ، بھویندرکمار دتہ ،چندر موجدار ، بیروت چندرمنڈل ، سری ڈی رائے ، نارائن سانیال ، پریندر کار،گنگا سرن، لال اوتار ، نارائن گجرال ، بھیم سین ، سی این گبن ، بی ایل رلیا رام جیسے شیڈول کاسٹ رہنما بھی شامل تھے۔
جب کہ پنجاب اسمبلی کے اسپیکر دیوان بہادر ایس پی سنگھا کا تعلق مسیحی برادری سے تھا جنہوں نے پنجاب اسمبلی میں پاکستان کی قرارداد کے حق میں اپنا اضافی ووٹ ڈال کر قیام پاکستان کو ممکن بنانے میں اہم کردار ادا کیا، اس کے علاوہ تقسیم کے وقت مسیحی قیادت نے باؤنڈری کمیشن سے مطالبہ کیا تھا کہ مسیحیوں کو مسلمانوں کے ساتھ شمار کیا جائے۔یہ کوئی اچانک پیدا شدہ رویہ نہیں تھا بلکہ قیام پاکستان سے پہلے 1935میں جیسویٹ مبلغین مشرقی شہر لاہور کے لاویلا ہال کو بین العقائد مکالمے کے مرکز کے طور پر استعمال کرتے تھے اسی طرح کا ایک اہم ادارہ کرسچین اسٹڈی سینٹر 1968 مں راولپنڈی میں قائم کیا گیا تھا ۔
اس وقت کے مسیحی برادری کے لیڈر ایس پی سنگھا نے باآواز بلند کرتے ہوئے کہا کہ:
"سینے پہ گولی کھائیں گے
پاکستان بنائیں گے"
دیوان ایس پی سنگھا نے 21 جون 1947ء کو شملہ پہاڑی کے نزدیک اپنی رہائش گاہ پر قائداعظم کے اعزاز میں ایک دعوت کا اہتمام کیا۔ اس دعوت میں محترمہ فاطمہ جناح اور عبدالرب نشتر بھی تھے۔ ایس پی سنگھا نے قائداعظم کو یقین دلایا کہ مسیحی کبھی آپ کی حمایت سے قدم پیچھے نہیں ہٹائیں گے۔ کانگریس اور انگریز کی سازش تھی کہ پورا پنجاب پاکستان کے بجائے بھارت کا حصہ بن جائے۔ اس سازش کے تحت اسمبلی میں ووٹنگ کروائی گئی تو تمام مسیحی ارکان نے مسلم لیگ کے حق میں ووٹ ڈالے۔ حمایت اور مخالفت میں آنے والے ووٹ برابر نکلے تو دیوان بہادر سنگھا نے جو اس وقت اسمبلی کے سپیکر تھے، اپنا کاسٹنگ ووٹ مسلم لیگ کے حق میں ڈال کر ہندو سازش ناکام بنادی۔ قیام پاکستان کے بعد ہجرت کرکے آنیوالے بے سرو سامان مہاجرین کی دیکھ بھال کا فریضہ بھی مسیحیوں نے مسلمانوں کے شانہ بہ شانہ سرانجام دیا۔ لاہور شہر کے اچھوت ہندو بھارت جانے کے بجائے مسیحی بن گئے اور پاکستانی قرار پائے۔
قائداعظم نے ہر بے زمین مسیحی کو ساڑھے بارہ ایکڑ زرع یاراضی دینے کا اعلان کیا۔ پاکستانی فوج کا پہلا سربراہ بھی مسیحی تھا۔ قائداعظم نے برسر اقتدار آکر چھ وزیر مقرر کئے۔ پہلے ڈپٹی سپیکر بھی مسیحی تھے اور یہ بھی حیرت انگیز اتفاق ہے کہ پاکستانی ترانے کی دھن اور موسیقی بھی ایک مسیحی موسیقار کی ترتیب دی تھی۔
پاکستانی پرچم کا سفید رنگ اقلیتوں کی پہچان ہے۔ یہ رنگ گاڑھا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اسکے گاڑھے پن سے اقلیتوں کے ساتھ وہ انصاف ہو سکے گا جس کا وعدہ بانیِ پاکستان نے اقلیتوں کے ساتھ کیا تھا۔
"پاکستان زندہ باد
پاکستان پائندہ باد
سب سے پہلے پاکستان"
Good Christian act in movement of Pakistan God bless to all Christian
ReplyDelete